ایک عاجز موچی
ایک زمانے میں قدیم بغداد کی ہلچل والی گلیوں میں علی نام کا ایک عاجز موچی رہتا تھا۔ اپنی کم وسائل کے باوجود، علی اپنی سخاوت اور مہربانی کے لیے شہر بھر میں مشہور تھے۔ ہر روز، وہ اپنی کمائی کا ایک حصہ اپنے سے کم خوش نصیبوں کی مدد کے لیے الگ کر دیتا تھا۔
گرمی کے ایک شدید دن، جب علی اپنی چھوٹی سی دکان کے باہر جوتے ٹھیک کرنے بیٹھا، ایک تھکا ہوا مسافر اس کے پاس آیا۔ مسافر صحرا میں اپنے سفر سے سوکھا اور تھک گیا تھا۔ ایک گرم مسکراہٹ کے ساتھ، علی نے مسافر کو اپنی دکان میں خوش آمدید کہا اور اسے ٹھنڈا پانی پیش کیا۔
علی کی مہربانی کے لیے مشکور، مسافر نے اپنے آپ کو علم کی جستجو میں ایک عقلمند بابا ہونے کا انکشاف کیا۔ علی کی مہمان نوازی کے بدلے میں، بابا نے اسے ایک چھوٹا، پیچیدہ نقش و نگار بنایا ہوا باکس عطا کیا۔ ’’اس ڈبے میں ایک قیمتی خزانہ ہے،‘‘ بابا نے کہا۔ "لیکن اس کی اصل قیمت اس میں موجود سونے اور جواہرات میں نہیں ہے، بلکہ اس کی حکمت میں ہے۔"
متجسس، علی نے باکس کھولا اور اس کے اندر ایک چمکتا ہوا موتی پایا۔ موتی کو دیکھتے ہی اس نے اپنے اوپر سکون کا احساس محسوس کیا۔ اس دن سے آگے، علی نے موتی کو اس کی مادی قیمت کے لیے نہیں، بلکہ اس کی حکمت کے لیے اہمیت دی۔
حضرت علی علیہ السلام کی ملاقات کی خبر پورے بغداد میں پھیل گئی اور جلد ہی دور دور سے لوگ ان کی رہنمائی کے لیے آ گئے۔ ہر اس شخص کے ساتھ جو اس نے مدد کی، علی نے موتی کی حکمت کا اشتراک کیا، انہیں رحمدلی، سخاوت اور ہمدردی کی حقیقی قدر سکھائی۔
اور اس طرح، عاجز موچی نہ صرف جوتے بنانے میں اپنی مہارت کے لئے جانا جاتا ہے بلکہ اس حکمت کے لئے بھی جانا جاتا ہے جو اس نے اپنے راستے سے گزرنے والے تمام لوگوں کے ساتھ شیئر کیا۔ اور ایسا کرتے ہوئے، اس نے محبت اور مہربانی کی ایک لازوال میراث چھوڑی جو آنے والی نسلوں تک دوسروں کو متاثر کرتی رہی۔
No comments:
Post a Comment
Please Only ask learning comments Plz not past any link